Getting your Trinity Audio player ready...
|
اس (اور اگلی )گرمی کی لہر میں ایک جینئس کی طرح کیسے زندہ ر ہیں ؟
It’s so hot! This phrase is no longer a debate. None of us can deny that the deadly heatwave is another clear sign of climate change. (In Pakistan, March was recorded as the hottest month last year).
Heat-related illnesses such as heat exhaustion and heat stroke can no longer be dismissed as mere fatigue and nausea. Excessive body heat can be deadly and can affect anyone. Prolonged exposure to direct sunlight can also lead to skin cancer, cataracts, and weakened immune systems, among other serious health risks.
Why is it so hot? The intensity of the heat has left both humans and the planet wondering how it got this bad. There are several reasons why the heat has become less bearable and more deadly, but the favorite topic among environmental scientists is “What do we do about it?”
Scientifically speaking, sunlight sustains life on Earth by reaching the surface and then reflecting enough heat to prevent us from overheating. But now, that remaining heat is trapped and doesn’t escape as it naturally should.
How is the heat trapped? Greenhouse gases trap heat. We can’t eliminate all greenhouse gases because some are naturally part of the environment. NASA explains, “Without any greenhouse gases, Earth would be a frozen desert.” However, the problem arises when there are too many greenhouse gases. At this point, global warming becomes a real concern.
Greenhouse gases can be both natural and man-made. When discussing climate change, we focus on man-made ones. Hydrofluorocarbons (HFCs) are among these dangerous man-made greenhouse gases, used in everything from building materials to cooling refrigerators and air conditioning units. In short, human activities play a significant role in trapping heat in the lower atmosphere where we live.
How will a genius survive the heat this summer and next? Intelligence tackles the problem at its roots. A genius won’t just rely on cold drinks, ice cream, or high BTU air conditioning. These are quick fixes that contribute to the problem we need to solve. These cooling solutions all have one thing in common: they use refrigerants.
Refrigerants like HFCs help us feel cool and momentarily forget the heat. HFCs are typically in colored cylinders used in our fridges and air conditioning units, rarely seen by the naked eye. When the cooling industry produces, uses, and disposes of HFCs, it releases greenhouse gases, leaving heat behind. The cooling industry is responsible for 10% of global CO2 emissions, outpacing even aviation.
A genius, which you can be, will wisely reject HFC-based fridges and air conditioners and opt for products that use natural or synthetic refrigerants with little or no global warming potential. If you don’t plan to buy new, service and maintain your current equipment properly to prevent HFC leaks into the air. As many countries and refrigerator manufacturers move away from HFCs, your smart choices will support their efforts. This may seem like an out-of-reach change, but it starts with you and your home.
According to the UN Environment Programme, if households and governments reduce HFC use by 85% by 2047 under the Kigali Amendment to the Montreal Protocol, we can prevent a 0.5°C rise in global temperatures by 2100. In other words, we can look forward to cooler summers ahead.
URDU TRANSLATION
اس (اور اگلی )گرمی کی لہر میں ایک جینئس کی طرح کیسے زندہ ر ہیں ؟
” بہت گرمی ہے! “
یہ جملہ اب ایک بحثی موضوع نہیں رہا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مہلک گرمی کی لہر موسمیاتی تبدیلی کا ایک اورزندہ اشارہ ہے یہ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ (پاکستان جہاں گذشتہ سال مارچ سب سے زیادہ گرم مہینہ ریکارڈ کیا گیا تھا)
گرمی سے متعلقہ بیماریاں جیسے گرمی کی وجہ سے تھکن اور ہیٹ اسٹروک) لو( لگ جانے کو اب تھکاوٹ اور متلی کے دباؤ کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ ضرورت سے زیادہ جسم کا گرم ہو نا حقیقت میں جان لے سکتے ہیں اور یہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ براہِ راست سورج کی روشنی میں زیادہ وقت گزارنے سے بھی جلد کے کینسر ، آنکھوں کے موتیا، اور کمزور مدافعتی نظام جیسے دوسرے پریشان کن صحت کے خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف چند بیماریوں کے نام ہیں، جو با ٓسانی سمجھے جاسکتے ہیں۔
بہر حال اتنی گرمی کیوں ہے؟
گرمی کی شدت کی وجہ سے انسان اور کرہ ِارض سب حیران ہیں کہ یہ معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا؟ ٹھیک ہے، کئی وجوہات کی بنا پر گرمی کم قابلِ برداشت اور زیادہ جان لیوا ہو جاتی ہےلیکن ماحولیاتی سائنسدانوں کی کمیونٹی کا سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع یہ ہے کہ ’’ ہم کیا کرتے ہیں ؟‘‘۔
سائنسی اور عام طور پر بولنے کے لیے، سورج کی روشنی انسانوں، جانوروں اور پودوں کی زندگیوں کو برقرار رکھنے کے لیے صرف زمین کی سطح تک پہنچتی ہے اور پھر باقی گرمی زمین کی سطح سے صرف اتنی ہی منعکس ہوتی ہے کہ اسے اور ہمیں زیادہ گرم ہونے سے روکا جا سکے۔ لیکن اب یہ معاملہ نہیں رہا کیونکہ اب باقی بچی ہوئی گرمی بھی ہم تک پہنچتی ہے۔وہ باقی گرمی اب گڑھ (trap) گئی ہے اور اتنی باہر نہیں جاتی جتنی قدرتی طور پر جانی چاہیے۔
یہ گرمی کس طرح ٹریپ ھوئی ہے؟
تو، گرمی کو آخر کیا ٹریپ کرتا ہے؟ گرین ہاؤس گیسز ۔
پھر ، ہم گرین ہاؤس گیسوں سے کیوں چھٹکارا نہیں پاتے ؟ یہ ہم نہیں کر سکتے ، ان میں سے کچھ قدرتی طور پر پہلے ہی ماحول کا حصّہ ہیں۔ ناسانے بہترین جواب دیا، ’’کسی بھی گرین ہاؤس گیسز کے بغیر ، زمین ایک برفانی صحرا ہو گی ۔‘‘
اور، گرین ہاؤس گیسیں اتنی خراب کیسے ہوئیں ہیں ؟ وہ اتنی بری نہیں ہیں، وہ بس بہت زیادہ ہیں۔ اس مقام پر، اب گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت کی خطرہ کی گھنٹی بج جانی چاہیے۔
گرین ہاؤس گیسیز قدرتی اور انسان ساختہ دونوں ہوسکتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بات کرتے وقت، ہم انسان ساختہ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ہائیڈرو فلورو کاربن (HFC) ان خطرناک انسان ساختہ گرین ہاؤس گیسیز میں سے ہے جو چھتوں اور دیواروں کی تعمیر اور گلاس بنانے سے لے کر فریج اور ایئر کنڈیشننگ کو ٹھنڈا بنانے تک مختلف انسانی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ایک جملے میں، انسانی سرگرمیاں نچلی فضا میں جس میں ہم رہتے ہیں گرمی کو ٹریپ کر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس اور اگلے موسم گرما کی گرمی میں ایک جینئس کیسے زندہ رہے گا؟
ذہانت اس مسئلے کو حل کرتی ہے جہاں اس کی جڑیں ہوتی ہیں۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ برفیلے مشروبات یا آئس کریم یا اس سے بھی زیادہ BTU
ایئر کنڈیشننگ کی طرف آنکھیں بند کر لیں گے۔ یہ بقا کیلئے ٹھنڈا رکھنے کے نسخے ہیں جو دراصل وہ وجوہات ہیں جن کے ساتھ ہمیں گرمی سے بچنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے: وہ ریفریجرینٹ استعمال کرتے ہیں۔
ریفریجرینٹ جیسا کے HFC ہمیں ٹھنڈا محسوس کرنے اور ایک لمحے کے لیے گرمی کو بھولنے میں مدد کرتا ہے.
HFCعام طور پر رنگین سلنڈر میں ہوتا ہے جو ہمارے فریج اور ایئر کنڈیشننگ میں استعمال ہو تا ہے اور ہماری آنکھوں سے شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ جب کولنگ انڈسٹری HFC پیدا کرتی ہے،استعمال کرتی ہے اور اسے ٹھکانے لگاتی ہے، تو یہ گرین ہاؤس گیس چھوڑ دیتی ہے، اس لیے گرمی پیچھے رہ جاتی ہے۔ ہوا بازی کی صنعت کو شکست دیتے ، کولنگ انڈسٹری عالمی CO2 کے10% اخراج کے لیے ذمہ دار ہے۔
ایک باصلاحیت انسان ، جو آپ بھی ہو سکتے ہیں ، وہ سمجھداری سے HFC پر مبنی فریجز اور ایئر کنڈیشننگ کے استعمال سے انکار کرے گا اور ان مصنوعات کے لیے ہاں کہے گا جو قدرتی یا مصنوعی متبادل ریفریجرینٹ استعمال کرتے ہیں جن میں اگلی خریداری پر گلوبل وارمنگ کی صلاحیت کم یا بالکل نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس نیا خریدنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، تو موجودہ کو مناسب طریقے سے سروس اور برقرار رکھنا چاہیے تاکہ HFC کو ہوا میں چھوڑنے کا کوئی رسائی نہ ہو۔ چونکہ بہت سے ممالک اور فریج بنانے والی کمپنیز HFC سے دور ہو رہی ہیں، آپ کی باصلاحیت طلب صرف ان کی سپلائی کو درست ثابت کرے گی۔ یہ پہنچ سے باہر کی تبدیلی کی طرح لگ سکتا ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس طرح کی غیر معمولی تبدیلی، بس آپ سے اور آپ کے گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پرو گرام کے مطابق، اگر ہم سب ، گھرانے اور حکومتیں 2047 تک HFC کے استعمال کو 85%تک کم کر سکتی ہیں مونٹریال پروٹوکول میں کیگالی ترمیم کےتحت، ہم 2100 تک عالمی درجۂ حرارت میں 0.5 ڈگری سیلسیں کو بڑھنے سے روک سکتے۔ دوسرے الفاظ میں، ٹھنڈی گرمیاں آنے کی توقع کر سکتےہیں۔